میرا خود سے ملنے کو جی چاہتا ہے
بہت اپنے بارے میں میں نے سنا ہے
سکوں سے کوئی گھر میں بیٹھا ہوا ہے
کوئی خواب میں دوڑتا بھاگتا ہے
ادب میں بہت کچھ پرانا ہے لیکن
ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا کچھ نیا ہے
جہاں آندھیوں نے جمائے تھے ڈیرے
ابھی تک وہاں ایک روشن دیا ہے
کوئی سو رہا ہے اجالے میں دن کے
کوئی رات کے خوف سے جاگتا ہے
مجھے حال دل کا سنانا ہے جس کو
اسے میرے بارے میں سب کچھ پتہ ہے
عجب شور محشر بپا ہے یقیناً
کسی شاخ سے کوئی پتا گرا ہے
غزل
میرا خود سے ملنے کو جی چاہتا ہے
خواجہ جاوید اختر

