میرا اک اک حرف پیمانہ مری ایذا کا ہے
تشنگی کی وسعتیں ہیں یہ کرم دریا کا ہے
بن گئے صحرا میں گھر لیکن گھروں میں آج تک
رو وہی وحشت کی ہے موسم وہی صحرا کا ہے
چاہے بک جاؤں چکاؤں گا مگر سب کا حساب
مجھ پہ قرض امروز کا ہے مجھ پہ حق فردا کا ہے
گرد و باد دشت کا احساں کہ ہے تو ساتھ ساتھ
اس سفر میں کون مجھ آوارہ و تنہا کا ہے
جائے بھی کوئی نیا رہرو تو اب جائے کدھر
بیکراں اک سیل ہر جانب نقوش پا کا ہے
کم نہ تھی کل بھی افق تابی مگر وہ کل کی تھی
آج ابھرنے والا سورج آج کی دنیا کا ہے
غزل
میرا اک اک حرف پیمانہ مری ایذا کا ہے
محشر بدایونی

