میرا غم ساری کائنات کا غم
میں نہیں جانتا نجات کا غم
جن کی خاطر یہ عمر گزری ہے
ان کو ہوتا ہے بات بات کا غم
میں تو ہارا ہوں جیت کر تم کو
کیا مٹے گا کبھی یہ مات کا غم
اب تو ہوں میں مشین کا پرزہ
ہے کہاں مجھ کو اپنی ذات کا غم
خواہشوں کے غلام ہیں ہم سب
پھر بھی ہم کو ہے خواہشات کا غم

غزل
میرا غم ساری کائنات کا غم
طارق رشید درویش