مہماں ہے کوئی دم کا زمانہ شباب کا
رکتا ہے کارواں بھی کہیں انقلاب کا
دور شگفتنی ہے یہ مانا مگر سنو
میری نگاہ میں ہے ابھرنا حباب کا
اعجاز ارتقا کا تماشا تو دیکھیے
ذرہ بھی ہم رکاب ہے اب آفتاب کا
سن کر وہ ماجرائے دل زار بول اٹھے
یہ واقعہ نہیں ہے کرشمہ ہے خواب کا
بیکار قادریؔ انہیں میں نے خجل کیا
کیا مل گیا جو کہہ دیا حال اضطراب کا
غزل
مہماں ہے کوئی دم کا زمانہ شباب کا
شاغل قادری