مذہب کی کتابوں میں بھی ارشاد ہوا میں
دنیا تری تعمیر میں بنیاد ہوا میں
صیاد سمجھتا تھا رہا ہو نہ سکوں گا
ہاتھوں کی نسیں کاٹ کے آزاد ہوا میں
عریاں ہے مرے شہر میں تہذیب کی دیوی
مندر کا پجاری تھا سو برباد ہوا میں
مضمون سے لکھتا ہوں کئی دوسرے مضموں
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ نقاد ہوا میں
ہر شخص حقارت سے مجھے دیکھ رہا ہے
جیسے کسی مظلوم کی فریاد ہوا میں
غزل
مذہب کی کتابوں میں بھی ارشاد ہوا میں
سنجے مصرا شوق