EN हिंदी
مذہب عشق کے عرفان پہ حیراں نکلا | شیح شیری
mazhab-e-ishq ke irfan pe hairan nikla

غزل

مذہب عشق کے عرفان پہ حیراں نکلا

مرغوب اثر فاطمی

;

مذہب عشق کے عرفان پہ حیراں نکلا
قیس جب دشت کو نکلا تو پریشاں نکلا

شدت شوق میں سرمست و شاداں نکلا
غم رسیدہ بھی اگر تھا تو غزل خواں نکلا

ان سے ملنے کی تمنا لیے ڈرتا ہی رہا
دل یہ کافر مرا در پردہ مسلماں نکلا

شام آئی تو لب لعلیں کی شوخی لے کر
مہر بکھراتے ہوئے لعل بدخشاں نکلا

جب کہ پرواز تخیل نے بھی صورت پالی
کتنا بے معنی سا اب تخت سلیماں نکلا

جانے کب چپکے سے آنکھوں نے در دل کھولا
آیا اک بار تو پھر گھر سے نہ مہماں نکلا

خواب ہی اچھے تھے ٹوٹے تو ہوا یہ افشا
جس کو گلزار سمجھتے تھے بیاباں نکلا

قیدئ حسن کی سرکار میں پیشی جو ہوئی
عشق سرشار تھا دیدار کا عنواں نکلا

دائرے فکر کے محدود ہوں ممکن ہی نہیں
کب اثرؔ معترف تنگئ داماں نکلا