مذہب عشق کے عرفان پہ حیراں نکلا
قیس جب دشت کو نکلا تو پریشاں نکلا
شدت شوق میں سرمست و شاداں نکلا
غم رسیدہ بھی اگر تھا تو غزل خواں نکلا
ان سے ملنے کی تمنا لیے ڈرتا ہی رہا
دل یہ کافر مرا در پردہ مسلماں نکلا
شام آئی تو لب لعلیں کی شوخی لے کر
مہر بکھراتے ہوئے لعل بدخشاں نکلا
جب کہ پرواز تخیل نے بھی صورت پالی
کتنا بے معنی سا اب تخت سلیماں نکلا
جانے کب چپکے سے آنکھوں نے در دل کھولا
آیا اک بار تو پھر گھر سے نہ مہماں نکلا
خواب ہی اچھے تھے ٹوٹے تو ہوا یہ افشا
جس کو گلزار سمجھتے تھے بیاباں نکلا
قیدئ حسن کی سرکار میں پیشی جو ہوئی
عشق سرشار تھا دیدار کا عنواں نکلا
دائرے فکر کے محدود ہوں ممکن ہی نہیں
کب اثرؔ معترف تنگئ داماں نکلا

غزل
مذہب عشق کے عرفان پہ حیراں نکلا
مرغوب اثر فاطمی