مئی کا آگ لگاتا ہوا مہینہ تھا
گھٹا نے مجھ سے مرا آفتاب چھینا تھا
بجا کہ تجھ سا رفوگر نہ مل سکا لیکن
یہ تار تار وجود ایک دن تو سینا تھا
اسے یہ ضد تھی کہ ہر سانس اس کی خاطر ہو
مگر مجھے تو زمانے کے ساتھ جینا تھا
یہ ہم ہی تھے جو بچا لائے اپنی جاں دے کر
ہوا کی زد پہ تری یاد کا سفینہ تھا
ندی خجل تھی کہ بھیگی ہوئی تھی پانی میں
مگر پہاڑ کے ماتھے پہ کیوں پسینا تھا
تم ان سلگتے ہوئے آنسوؤں کا غم نہ کرو
ہمیں تو روز ہی یہ زہر ہنس کے پینا تھا
تمام عمر کسی کا نہ بن سکا شبنمؔ
وہ جس کو بات بنانے کا بھی قرینا تھا

غزل
مئی کا آگ لگاتا ہوا مہینہ تھا
رفیعہ شبنم عابدی