موت اس بیکس کی غایت ہی سہی
عمر بھر جس نے مصیبت ہی سہی
حسن کا انجام دیکھیں اہل حسن
عشق میرا بے حقیقت ہی سہی
زندگی ہے چشم عبرت میں ابھی
کچھ نہیں تو عیش و عشرت ہی سہی
دیکھ لیتا ہوں تبسم حسن کا
غم پرستی میری فطرت ہی سہی
پردہ دار سادگی ہے ہر ادا
یہ تصنع بے ضرورت ہی سہی
درپئے آزار ہے قسمت تو ہو
اب مجھے تم سے محبت ہی سہی
حور بے جا کی تلافی کچھ تو کر
خیر اظہار ندامت ہی سہی
اے اجل کچھ زندگی کا حق بھی ہے
زندگی تیری امانت ہی سہی
کیا کروں اکبرؔ دلی جذبات کو
اس تغزل میں قدامت ہی سہی
غزل
موت اس بیکس کی غایت ہی سہی
اکبر حیدری