EN हिंदी
موت نے پردا کرتے کرتے پردا چھوڑ دیا | شیح شیری
maut ne parda karte karte parda chhoD diya

غزل

موت نے پردا کرتے کرتے پردا چھوڑ دیا

ساقی فاروقی

;

موت نے پردا کرتے کرتے پردا چھوڑ دیا
میرے اندر آج کسی نے جینا چھوڑ دیا

خوف کہ رستہ بھول گئی امید کی اجلی دھوپ
اس لڑکی نے بالکنی پر آنا چھوڑ دیا

روز شکایت لے کر تیری یاد آ جاتی ہے
جس کا دامن آہستہ آہستہ چھوڑ دیا

دنیا کی بے راہ روی کے افسانے لکھے
اور اپنی دنیا داری کا قصہ چھوڑ دیا

بس تتلی کا کچا کچا رنگ آنکھوں میں ہے
زندہ رہنے کی خواہش نے پیچھا چھوڑ دیا