موت کی سن کے خبر پیار جتانے آئے
روٹھنے دنیا سے جو ہم یار منانے آئے
اچھے دن آئے تو میں نے یہ تماشہ دیکھا
میرے دشمن بھی گلے مجھ کو لگانے آئے
آج مل کر مرے دشمن کا پتہ پوچھتے ہیں
مجھ سے ملنے وہ نہ ملنے کے بہانے آئے
درد و غم اور اداسی کے سوا کون آتا
جن کو بھیجا تھا مرے گھر میں خدا نے آئے
پھول ہی پھول کھلے جن کی بدولت اے دوست
ان کے حصے میں نہ پھولوں کے خزانے آئے
ایدھی والوں کے سوا کوئی نہیں تھا اس کا
لوگ مفلس کا جنازہ نہ اٹھانے آئے
رو دیے وہ بھی مری موت کے بعد اے پرنمؔ
یاد جب میری وفاؤں کے فسانے آئے
غزل
موت کی سن کے خبر پیار جتانے آئے
پرنم الہ آبادی