EN हिंदी
موت کی سن کے خبر پیار جتانے آئے | شیح شیری
maut ki sun ke KHabar pyar jatane aae

غزل

موت کی سن کے خبر پیار جتانے آئے

پرنم الہ آبادی

;

موت کی سن کے خبر پیار جتانے آئے
روٹھنے دنیا سے جو ہم یار منانے آئے

اچھے دن آئے تو میں نے یہ تماشہ دیکھا
میرے دشمن بھی گلے مجھ کو لگانے آئے

آج مل کر مرے دشمن کا پتہ پوچھتے ہیں
مجھ سے ملنے وہ نہ ملنے کے بہانے آئے

درد و غم اور اداسی کے سوا کون آتا
جن کو بھیجا تھا مرے گھر میں خدا نے آئے

پھول ہی پھول کھلے جن کی بدولت اے دوست
ان کے حصے میں نہ پھولوں کے خزانے آئے

ایدھی والوں کے سوا کوئی نہیں تھا اس کا
لوگ مفلس کا جنازہ نہ اٹھانے آئے

رو دیے وہ بھی مری موت کے بعد اے پرنمؔ
یاد جب میری وفاؤں کے فسانے آئے