موت ہے زندگی زندگی موت ہے
ہر نفس موت ہے ہر گھڑی موت ہے
میں اندھیروں میں کھو جاؤں ممکن نہیں
ایک پروانے کی روشنی موت ہے
اس لئے شاد رہتا ہوں ہر حال میں
میرے دشمن کو میری خوشی موت ہے
کوئی تلوار خنجر نہ تیر و تبر
حرملہ کے لئے اک ہنسی موت ہے
خامشی عاقلوں کی ہے خوبی مگر
بعض اوقات پر خامشی موت ہے
صابروں کے لئے ہر طرف ہے حیات
ظالموں کے لئے موت ہی موت ہے
ایک کڑوی حقیقت کہیں اور کہیں
شہد سے بھی سوا چاشنی موت ہے
قید غربت سے عارفؔ نکل جائیے
ہے خبر آپ کو مفلسی موت ہے
غزل
موت ہے زندگی زندگی موت ہے
سید محمد عسکری عارف