موت آتی نہیں قرینے کی
یہ سزا مل رہی ہے جینے کی
مے سے پرہیز شیخ توبہ کرو
اک یہی چیز تو ہے پینے کی
تم کو کہتا ہے آئنہ خود میں
باتیں سنتے ہو اس کمینے کی
ہو گیا جب سے بے نقاب کوئی
شمع روشن نہ پھر کسی نے کی
چشم تر آبرو تو پیدا کر
یوں نہیں بجھتی آگ سینے کی
اہل دنیا سے کیا بدی کا گلا
اے تپشؔ تو نے کس سے کی نیکی

غزل
موت آتی نہیں قرینے کی
شیخ عبداللطیف تپش