EN हिंदी
موسم سوکھا سوکھا سا تھا لیکن یہ کیا بات ہوئی | شیح شیری
mausam sukha sukha sa tha lekin ye kya baat hui

غزل

موسم سوکھا سوکھا سا تھا لیکن یہ کیا بات ہوئی

امام اعظم

;

موسم سوکھا سوکھا سا تھا لیکن یہ کیا بات ہوئی
کیول اس کے کمرے میں ہی رات گئے برسات ہوئی

میں نے سمجھا، اس نے سمجھا، بھیڑ میں بھی خاموشی تھی
دیکھنے والے کچھ بھی نہ سمجھے لیکن پھر بھی بات ہوئی

بن مانگے مل جائے موتی تو اس کو تقدیر کہو
دامن پھیلا کر دنیا مل جائے تو خیرات ہوئی

سنکٹ کے دن تھے تو سائے بھی مجھ سے کتراتے تھے
سکھ کے دن آئے تو دیکھو دنیا میرے سات ہوئی

جیون کے اس کھیل میں اپنا گیان بھی دھوکا دیتا ہے
الٹے سارے داؤ ہمارے شہہ بھی دی تو مات ہوئی

جاتے جاتے تنہائی کا غم دینے وہ آئے تھے
تم ہی بولو کیا یہ ان کی الفت کی سوغات ہوئی

اعظمؔ بھولنا چاہے بھی تو اب تک بھول نہ پائے وہ
ان کی یادوں سے وابستہ ایسے میری ذات ہوئی