EN हिंदी
موسم کو بھی وقارؔ بدل جانا چاہئے | شیح شیری
mausam ko bhi waqar badal jaana chahiye

غزل

موسم کو بھی وقارؔ بدل جانا چاہئے

وقار فاطمی

;

موسم کو بھی وقارؔ بدل جانا چاہئے
کھولی ہیں کھڑکیاں تو ہوا آنا چاہئے

بے جا انا سے اور الجھتے ہیں مسئلے
آیا نہیں ہے وہ تو مجھے جانا چاہئے

سچ کو بھی جھوٹ جھوٹ کو سچ کر دکھاؤ گے
بس اک امیر شہر سے یارانہ چاہئے

سورج کا فیض عام ہے پر وہ بھی کیا کرے
روزن تو گھر میں کوئی نظر آنا چاہئے

ہم جیسے لوگ یوں تو بڑے سخت جان ہیں
اک وار چاہیے سو شریفانہ چاہیے