موسم کے مطابق کوئی ساماں بھی نہیں ہے
اور رت کے بدل جانے کا امکاں بھی نہیں ہے
ڈھونڈو تو خوشی کا کوئی پل ہاتھ نہ آئے
دیکھو تو یہاں کوئی پریشاں بھی نہیں ہے
رشتے میں وہ پہلی سی تڑپ اب نہیں ملتی
ہاں یوں تو بظاہر وہ گریزاں بھی نہیں ہے
بس چھت کے شگافوں کو پڑے گھورتے رہئے
یارا بھی نہیں محفل یاراں بھی نہیں ہے
پھر کیوں نہ اسے ہمدم و ہم زاد بنا لیں
جب یوں ہے کہ اس درد کا درماں بھی نہیں ہے
وہ وقت بھی تھا ہم کو زمانے کی خبر تھی
اب یوں ہے کہ احساس رگ جاں بھی نہیں ہے
اب قتل کی خبروں کا وہ عالم ہے کہ ارشدؔ
سن کر کوئی حیران و پریشاں بھی نہیں ہے
غزل
موسم کے مطابق کوئی ساماں بھی نہیں ہے
راشد جمال فاروقی