موسم ہجر تو دائم ہے نہ رخصت ہوگا
ایک ہی لمحے کو ہو وصل غنیمت ہوگا
میرا دل آخری تارے کی طرح ہے گویا
ڈوبنا اس کا نئے دن کی بشارت ہوگا
اب کے ہنگامہ نئی طرح ہوا ہے آغاز
شہر بھی اب کے نئے طور سے غارت ہوگا
شاخ سے ٹوٹ کے پتے نے یہ دل میں سوچا
کون اس طرح بھلا مائل ہجرت ہوگا
دل سے دنیا کا جو رشتہ ہے عجب رشتہ ہے
ہم جو ٹوٹے ہیں تو کب شہر سلامت ہوگا
بادبانوں سے ہوا لگ کے گلے روتی ہے
یہ سفینہ بھی کسی موج کی قسمت ہوگا
غزل
موسم ہجر تو دائم ہے نہ رخصت ہوگا
اسعد بدایونی