موسم گل پر خزاں کا زور چل جاتا ہے کیوں
ہر حسیں منظر بہت جلدی بدل جاتا ہے کیوں
یوں اندھیرے میں دکھا کر روشنی کی اک جھلک
میری مٹھی سے ہر اک جگنو نکل جاتا ہے کیوں
روشنی کا اک مسافر تھک کے گھر آتا ہے جب
تو اندھیرا میرے سورج کو نگل جاتا ہے کیوں
تیرے لفظوں کی تپش سے کیوں سلگ اٹھتی ہے جاں
سرد مہری سے بھی تیری دل یہ جل جاتا ہے کیوں
اب کے جب لوٹے گا وہ تو فاصلہ رکھیں گے ہم
یہ ارادہ اس کے آتے ہی بدل جاتا ہے کیوں
دور ہے سورج علیناؔ پھر بھی اس کی دھوپ سے
برف کی چادر میں لپٹا تن پگھل جاتا ہے کیوں
غزل
موسم گل پر خزاں کا زور چل جاتا ہے کیوں
علینا عترت