EN हिंदी
موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو | شیح شیری
mausam-e-gul aaya hai yaro kuchh meri tadbir karo

غزل

موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو

میر تقی میر

;

موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو
یعنی سایۂ سر و گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو

پیش سعایت کیا جائے ہے حق ہے میری طرف سو ہے
میں تو چپ بیٹھا ہوں یکسو گر کوئی تقریر کرو

کان لگا رہتا ہے غیر اس شوخ کماں ابرو کے بہت
اس تو گناہ عظیم پہ یارو ناک میں اس کی تیر کرو

پھیر دئیے ہیں دل لوگوں کے مالک نے کچھ میری طرف
تم بھی ٹک اے آہ و نالہ قلبوں میں تاثیر کرو

آگے ہی آزردہ ہیں ہم دل ہیں شکستہ ہمارے سب
حرف رنجش بیچ میں لا کر اور نہ اب دلگیر کرو

شعر کیے موزوں تو ایسے جن سے خوش ہیں صاحب دل
روویں کڑھیں جو یاد کریں اب ایسا تم کچھ میرؔ کرو