EN हिंदी
موجوں کا شور و شر ہے برابر لگا ہوا | شیح شیری
maujon ka shor-o-shar hai barabar laga hua

غزل

موجوں کا شور و شر ہے برابر لگا ہوا

خواجہ جاوید اختر

;

موجوں کا شور و شر ہے برابر لگا ہوا
دریا سے اس قدر ہے مرا گھر لگا ہوا

ایسا نہ ہو کہ ٹوٹ پڑے سر پہ آسماں
ہے کچھ دنوں سے مجھ کو بڑا ڈر لگا ہوا

اب اس کے شر سے خود کو بچانا بھی ہے مجھے
رہتا ہے میرے ساتھ جو اکثر لگا ہوا

حد چھو رہی تھی رات جہاں تشنگی مری
تھا اس کے بعد ایک سمندر لگا ہوا

سناٹے چیختے ہیں مرے چار سو مگر
دل میں ہے اضطراب کا محشر لگا ہوا

دشمن کی بات چھوڑیئے حیرت ہے خود مجھے
گردن سے آج بھی ہے مرا سر لگا ہوا

تکتا ہوں بے قرار نگاہوں سے بار بار
ہے آسماں سے میرا کبوتر لگا ہوا