موجوں کا شور و شر ہے برابر لگا ہوا
دریا سے اس قدر ہے مرا گھر لگا ہوا
ایسا نہ ہو کہ ٹوٹ پڑے سر پہ آسماں
ہے کچھ دنوں سے مجھ کو بڑا ڈر لگا ہوا
اب اس کے شر سے خود کو بچانا بھی ہے مجھے
رہتا ہے میرے ساتھ جو اکثر لگا ہوا
حد چھو رہی تھی رات جہاں تشنگی مری
تھا اس کے بعد ایک سمندر لگا ہوا
سناٹے چیختے ہیں مرے چار سو مگر
دل میں ہے اضطراب کا محشر لگا ہوا
دشمن کی بات چھوڑیئے حیرت ہے خود مجھے
گردن سے آج بھی ہے مرا سر لگا ہوا
تکتا ہوں بے قرار نگاہوں سے بار بار
ہے آسماں سے میرا کبوتر لگا ہوا

غزل
موجوں کا شور و شر ہے برابر لگا ہوا
خواجہ جاوید اختر