موجۂ غم میں روانی بھی تو ہو
کچھ جگر کا خون پانی بھی تو ہو
رنج صورت کے بدل جانے کا کیا
کوئی شے دنیا کی فانی بھی تو ہو
غم میں رفتہ رفتہ مستی آئے گی
کچھ دنوں یہ مے پرانی بھی تو ہو
کیجئے گا سن کے کیا روداد غم
کیا کہوں کوئی کہانی بھی تو ہو
کیا تقابل میری جولانی سے زیبؔ
کوئی دریا میں روانی بھی تو ہو
غزل
موجۂ غم میں روانی بھی تو ہو
زیب غوری