EN हिंदी
موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے | شیح شیری
mauj-e-hawa ki zanjiren pahnenge dhum machaenge

غزل

موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے

راہی معصوم رضا

;

موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے
تنہائی کو گیت میں ڈھالیں گے گیتوں کو گائیں گے

کندھے ٹوٹ رہے ہیں صحرا کی یہ وسعت بھاری ہے
گھر جائیں تو اپنی نظر میں اور سبک ہو جائیں گے

پرچھائیں کے اس جنگل میں کیا کوئی موجود نہیں
اس دشت تنہائی سے کب لوگ رہائی پائیں گے

زمزم اور گنگا جل پی کر کون بچا ہے مرنے سے
ہم تو آنسو کا یہ امرت پی کے امر ہو جائیں گے

جس بستی میں سب واقف ہوں وہ بستی اک زنداں ہے
وحشت کی فصل آئے گی تو ہم کتنا گھبرائیں گے

آج جو اس بے دردی سے ہنستا ہے ہماری وحشت پر
اک دن ہم اس شہر کو راہیؔ رہ رہ کر یاد آئیں گے