موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے
تنہائی کو گیت میں ڈھالیں گے گیتوں کو گائیں گے
کندھے ٹوٹ رہے ہیں صحرا کی یہ وسعت بھاری ہے
گھر جائیں تو اپنی نظر میں اور سبک ہو جائیں گے
پرچھائیں کے اس جنگل میں کیا کوئی موجود نہیں
اس دشت تنہائی سے کب لوگ رہائی پائیں گے
زمزم اور گنگا جل پی کر کون بچا ہے مرنے سے
ہم تو آنسو کا یہ امرت پی کے امر ہو جائیں گے
جس بستی میں سب واقف ہوں وہ بستی اک زنداں ہے
وحشت کی فصل آئے گی تو ہم کتنا گھبرائیں گے
آج جو اس بے دردی سے ہنستا ہے ہماری وحشت پر
اک دن ہم اس شہر کو راہیؔ رہ رہ کر یاد آئیں گے
غزل
موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے
راہی معصوم رضا