موج آئے کوئی حلقۂ گرداب کی صورت
میں ریت پہ ہوں ماہیٔ بے آب کی صورت
صدیوں سے سرابوں میں گھرا سوچ رہا ہوں
بن جائے کہیں سبزۂ شاداب کی صورت
آثار نہیں کوئی مگر دل کو یقیں ہے
گھر ہوگا کبھی وادیٔ مہتاب کی صورت
ہے سوچ کا تیشہ تو نکل آئے گی اک دن
پتھر کے حصاروں میں کوئی باب کی صورت
پہچان مجھے بھی کہ زمیں شکل ہے میری
میں سندھ کا چہرہ ہوں نہ پنجاب کی صورت

غزل
موج آئے کوئی حلقۂ گرداب کی صورت
شاہد شیدائی