مطلب کی بات شکل سے پہچان جائیے
میں کیوں کہوں زبان سے خود جان جائیے
آئے وہ نزع میں بھی نہ حسرت نکالنے
اب زیر خاک لے کے سب ارمان جائیے
اس بھولی بھولی شکل کے ہو جائیے نثار
ان بھولی بھولی باتوں کے قربان جائیے
بانہیں گلے میں ڈالیے بھی اب ہنسی خوشی
یہ ہے شب وصال کہا مان جائیے
کیا تھا جو مسکراتے ہوئے کہہ گئے ابھی
خاک آ کے میرے در کی ذرا چھان جائیے
مہماں نواز ان سا کوئی دوسرا نہیں
جی میں ہے ان کے گھر کبھی مہمان جائیے
ہے قصد آج حضرت دل ان کی بزم کا
اللہ آپ کا ہے نگہبان جائیے
جا بیٹھیے تنک کے ذرا مجھ سے پھر الگ
بے کچھ کہے سنے بھی برا مان جائیے
بدیمن میرے حق میں ہے صبح شب وصال
کھولے ہوئے نہ بال پریشان جائیے
کیا تاب ہے ریاضؔ تمہاری زبان کی
رنگینئی کلام کے قربان جائیے
غزل
مطلب کی بات شکل سے پہچان جائیے
ریاضؔ خیرآبادی