متاع و مال نہ دے دولت تباہی دے
مجھے بھی مملکت غم کی بادشاہی دے
کھڑا ہوا ہوں میں دست طلب دراز کئے
نہ میرے سر کو یوں الزام کج کلاہی دے
میں اپنے آپ کو کس طرح سنگسار کروں
مرے خلاف مرا دل اگر گواہی دے
میں ٹھہرے پانی کی مانند قید ہوں خود میں
کوئی نشیب کی جانب مجھے بہا ہی دے
مرے دنوں کو جواں جسم کا اجالا دے
مری شبوں کو گھنی زلف کی سیاہی دے
کبھی تو لذت کام و دہن دوبالا کر
ہم ایسے فاقہ کشوں کو بھی مرغ و ماہی دے
ہر ایک دور کے سقراط کا یہ ورثہ ہے
مجھے بھی لا مری زہراب کی صراحی دے
غزل
متاع و مال نہ دے دولت تباہی دے
عقیل شاداب