EN हिंदी
مت اسے ہاتھ لگانا وہ سجن آگ ہے آگ | شیح شیری
mat use hath lagana wo sajan aag hai aag

غزل

مت اسے ہاتھ لگانا وہ سجن آگ ہے آگ

خورشید اکبر

;

مت اسے ہاتھ لگانا وہ سجن آگ ہے آگ
تم اسے خاک سمجھتے ہو بدن آگ ہے آگ

اس کی حسرت میں بھلے لوگ مرے جاتے ہیں
کون سمجھائے کہ وہ غنچہ دہن آگ ہے آگ

اپنی تہذیب کو پانی کی ضرورت ہوگی
چوم آیا ہوں لب گنگ و جمن آگ ہے آگ

وہ جو مومن ہے تو مٹی ہی کفن ہے اس کا
اور کافر ہے تو پھر اس کا کفن آگ ہے آگ

سارے سیارے ستارے بھی ہیں آتش پارے
یہ زمیں آگ کی ہے نیل گگن آگ ہے آگ

پھول کھلتے ہیں کہ بارود خبر بھی دینا
کتنا شاداب ہے اور کتنا چمن آگ ہے آگ

سرد الفاظ کو بخشی ہے حرارت کس نے
رشک خورشیدؔ ہے وہ اس کا سخن آگ ہے آگ