مت خدا ڈھونڈ سوالات کے آئینے میں
اس کو پہچان عنایات کے آئینے میں
مائل حق بھی ہے عاصی بھی انا والا بھی
وہ جو رہتا ہے مری ذات کے آئینے میں
کچھ رقم ہے مری قسمت بھی ترے ہاتھوں میں
سب نہیں ملتا مرے ہات کے آئینے میں
جنگ جاری ہے میری نفس امارہ سے ہنوز
جب سے دیکھا تجھے برسات کے آئینے میں
قلب جب تک نہ منور ہو یقین کل سے
وسوسے پالے ہے شبہات کے آئینے میں
رشتے بے لوث فضا میں جو جنم لیتے ہیں
وہ نہیں ٹوٹتے حالات کے آئینے میں
قرب شبیر ہے کیا رے کی حکومت کیا ہے
حر نے سب دیکھ لیا رات کے آئینے میں
غیر بھی سونگھ لیا کرتے ہیں اکثر شاربؔ
اک محبت تری ہر بات کے آئینے میں
غزل
مت خدا ڈھونڈ سوالات کے آئینے میں
سید اقبال رضوی شارب