مت غضب کر چھوڑ دے غصہ سجن
آ جدائی خوب نئیں مل جا سجن
بے دلوں کی عذر خواہی مان لے
جو کہ ہونا تھا سو ہو گزرا سجن
تم سوا ہم کوں کہیں جاگا نہیں
پس لڑو مت ہم سیتی بے جا سجن
مر گئے غم سیں تمہارے ہم پیا
کب تلک یہ خون غم کھانا سجن
جو لگے اب کاٹنے اخلاص کے
کیا یہی تھا پیار کا ثمرا سجن
چھوڑ تم کوں اور کس سیں ہم ملیں
کون ہے دنیا میں کوئی تم سا سجن
پاؤں پڑتا ہوں تمہارے رحم کو
بات میری مان لے ہاہا سجن
تنگ رہنا کب تلک غنچے کی طرح
پھول کے مانند ٹک کھل جا سجن
آبروؔ کوں کھو کے پچھتاؤ گے تم
ہم کو لازم ہے اتا کہنا سجن
غزل
مت غضب کر چھوڑ دے غصہ سجن
آبرو شاہ مبارک