مستوں کے جو اصول ہیں ان کو نبھا کے پی
اک بوند بھی نہ کل کے لیے تو بچا کے پی
کیوں کر رہا ہے کالی گھٹاؤں کے انتظار
ان کی سیاہ زلف پہ نظریں جما کے پی
چوری خدا سے جب نہیں بندوں سے کس لیے
چھپنے میں کچھ مزا نہیں سب کو دکھا کے پی
فیاضؔ تو نیا ہے نہ پی بات مان لے
کڑوی بہت شراب ہے پانی ملا کے پی
غزل
مستوں کے جو اصول ہیں ان کو نبھا کے پی
فیاض ہاشمی