EN हिंदी
مسرور ہو رہے ہیں غم عاشقی سے ہم | شیح شیری
masrur ho rahe hain gham-e-ashiqi se hum

غزل

مسرور ہو رہے ہیں غم عاشقی سے ہم

ابو محمد واصل

;

مسرور ہو رہے ہیں غم عاشقی سے ہم
کیوں تنگ ہوں گے کشمکش زندگی سے ہم

کوہ الم اٹھا ہی لیا راہ عشق میں
اپنی خوشی کو چھوڑ کے تیری خوشی سے ہم

لب ہائے یار نے تو گلستاں پرو لئے
خوشبو جو پا رہے ہیں تری پنکھڑی سے ہم

اپنی بہار دیکھ کے حیران رہ گئے
واقف ہوئے ہیں جب سے رموز خودی سے ہم

میری جبین شوق کو در ان کا مل گیا
اٹھ کر کہاں کو جائیں در بندگی سے ہم

راہ وفا میں جی کے مرے مر کے بھی جئے
کھیلا اسی طرح سے کئے زندگی سے ہم

دامن کو تار تار کیا منزلیں ملیں
آئیں گے اب نہ ہوش میں دیوانگی سے ہم

خود درد بن گیا مرا درمان زندگی
اتنا قریب ہو گئے کچھ درد ہی سے ہم

جو مقصد حیات کو بھولے وہی کہیں
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم

واصلؔ کے داغ دل سے ہے منزل کی روشنی
ورنہ نکل کے آتے بھلا تیرگی سے ہم