مصروفیت اسی کی ہے فرصت اسی کی ہے
اس سرزمین دل پہ حکومت اسی کی ہے
ملتا ہے وہ بھی ترک تعلق کے باوجود
میں کیا کروں کہ مجھ کو بھی عادت اسی کی ہے
جو عمر اس کے ساتھ گزاری اسی کی تھی
باقی جو بچ گئی ہے مسافت اسی کی ہے
ہوتا ہے ہر کسی پہ اسی کا گماں مجھے
لگتا ہے ہر کسی میں شباہت اسی کی ہے
لکھوں تو اس کے عشق کو لکھنا ہے شاعری
سوچوں تو یہ سخن بھی عنایت اسی کی ہے
در آستاں کوئی ہو بظاہر سر سجود
لیکن پس سجود عبادت اسی کی ہے
وہ جس کے حق میں جھوٹی گواہی بھی میں نے دی
روحیؔ مرے خلاف شہادت اسی کی ہے
غزل
مصروفیت اسی کی ہے فرصت اسی کی ہے
ریحانہ روحی