مصلحت کا کوئی خدا ہے یہاں
کام جو سب کے کر رہا ہے یہاں
اور ملتا بھی کیا فقیروں سے
صرف اک حوصلہ ملا ہے یہاں
لوگ محتاط ہیں رویوں میں
قربتوں میں بھی فاصلہ ہے یہاں
عادتا پوچھنے لگے ہیں لوگ
کیا کوئی حادثہ ہوا ہے یہاں
علم تو دفن ہو چکا کب کا
کچھ کتابوں کا سلسلہ ہے یہاں
روشنی منتقل نہیں کی گئی
بس دیے سے دیا جلا ہے یہاں
غزل
مصلحت کا کوئی خدا ہے یہاں
علی زبیر