EN हिंदी
مشرب حسن کے عنوان بدل جاتے ہیں | شیح شیری
mashrab-e-husn ke unwan badal jate hain

غزل

مشرب حسن کے عنوان بدل جاتے ہیں

زیب بریلوی

;

مشرب حسن کے عنوان بدل جاتے ہیں
مذہب عشق میں ایمان بدل جاتے ہیں

رخ جاں سے ترے پیکان بدل جاتے ہیں
خانۂ قلب کے مہمان بدل جاتے ہیں

عشق میں پیار کے بدل جاتے ہیں
حسن کے فیض سے رومان بدل جاتے ہیں

انقلابات تمدن سے جہاں میں اکثر
میں نے دیکھا ہے کہ انسان بدل جاتے ہیں

اک سفینے کے تصادم سے یہ دیکھا میں نے
روز امڈتے ہوئے طوفان بدل جاتے ہیں

اتنی اے دوست پلا ہوش نہ آنے پائے
عالم ہوش میں ارمان بدل جاتے ہیں

منظر شام و سحر پر نہ ہو گریاں شبنم
غنچہ و گل کے نگہبان بدل جاتے ہیں

ایسے افسانے بھی گزرے ہیں نگاہوں سے بہت
جن کے انجام سے عنوان بدل جاتے ہیں

منظر عام پہ آتے ہی پیام مزدور
سطوت شاہی کے فرمان بدل جاتے ہیں

زندگی جذبۂ رومان مسلسل ہی سہی
تیرے احساس سے رومان بدل جاتے ہیں

ختم گلشن پہ نہیں زیبؔ بہاروں کی حدیں
موسم گل میں بیابان بدل جاتے ہیں