مشقت کی تپش میں جسم کا لوہا گلاتے ہیں
بڑی مشکل سے اس مٹی کو ہم سونا بناتے ہیں
ترستے ہیں کہیں کچھ لوگ روٹی کے نوالوں کو
کہیں ہر شام شہزادے شرابوں میں نہاتے ہیں
کبھی سوکھے ہوئے پیڑوں کا وہ ماتم نہیں کرتے
ہوں جن کے ذہن تعمیری نئے پودے لگاتے ہیں
خدایا رحم ان معصوم بچوں کے لڑکپن پر
جنہیں کاغذ سیہ کرنے تھے وہ کاغذ اٹھاتے ہیں
بہت آنسو رلائے ہیں ہمیں تقسیم گلشن نے
مہاجر وہ سمجھتے ہیں تو یہ باغی بتاتے ہیں
میں اپنے ظرف سے بڑھ کر اگر کچھ مانگ لیتا ہوں
تو پھر احساس کے شعلے سکوں میرا جلاتے ہیں
مصیبت کوئی آ جائے کسی پر اس زمانے میں
تو پھر کیا غیر کیا اپنے سبھی دامن بچاتے ہیں
غزل
مشقت کی تپش میں جسم کا لوہا گلاتے ہیں
مجاہد فراز