مشعل درد پھر ایک بار جلا لی جائے
جشن ہو جائے ذرا دھوم مچا لی جائے
خون میں جوش نہیں آیا زمانہ گزرا
دوستو آؤ کوئی بات نکالی جائے
جان بھی میری چلی جائے تو کچھ بات نہیں
وار تیرا نہ مگر ایک بھی خالی جائے
جو بھی ملنا ہے ترے در ہی سے ملنا ہے اسے
در ترا چھوڑ کے کیسے یہ سوالی جائے
وصل کی صبح کے ہونے میں ہے کچھ دیر ابھی
داستاں ہجر کی کچھ اور بڑھا لی جائے
غزل
مشعل درد پھر ایک بار جلا لی جائے
شہریار