مسرت کو مسرت غم کو جو بس غم سمجھتے ہیں
وہ ناداں زندگی کا راز اکثر کم سمجھتے ہیں
حقیقت میں وہی راز حقیقت سے ہیں ناواقف
جنہیں دعویٰ ہے یہ راز حقیقت ہم سمجھتے ہیں
نہیں حاجت ہمیں اے چارہ سازو چارہ سازی کی
ہم اپنے درد ہی کو درد کا مرہم سمجھتے ہیں
ہماری سادہ لوحی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی
کہ ہم نا آشنا کو آشنائے غم سمجھتے ہیں
یہ کیسا راز ہے ان کے ہمارے درمیاں یا رب
نہ جس کو وہ سمجھتے ہیں نہ جس کو ہم سمجھتے ہیں
میں ان کے رنج کے قرباں میں ان کے درد کے صدقے
جو ہر انسان کے غم کو خود اپنا غم سمجھتے ہیں
سمجھتے ہیں جلیسؔ اب آپ تو عالم کو بیگانہ
مگر ہم آپ کو بیگانۂ عالم سمجھتے ہیں
غزل
مسرت کو مسرت غم کو جو بس غم سمجھتے ہیں
برہما نند جلیس