مسئلہ یہ بھی بہ فیض عشق آساں ہو گیا
زیست کو اندازۂ غم ہائے دوراں ہو گیا
دل میں جب احساس کا شعلہ فروزاں ہو گیا
نور افشاں ہر چراغ بزم امکاں ہو گیا
تیرے لہراتے ہی اے جان طرب روح نشاط
زندگی رقصاں ہوئی عالم غزل خواں ہو گیا
اس طرح میری بہار زندگی رخصت ہوئی
دل اجڑ کر رہ گیا آغوش ویراں ہو گیا
ہو گئی جب زخمہ زن درد محبت کی خلش
ہر نفس اک نغمۂ ساز رگ جاں ہو گیا
انجم افشاں ہو گئی جب میری چشم اشکبار
درد کی تیرہ فضاؤں میں چراغاں ہو گیا
جس کے آئینے میں لاکھوں رنگ تھے جلوہ فگن
خواب سا وہ لمحۂ عیش فراواں ہو گیا
میں نے ہر بت کی پرستش کی کچھ اس انداز سے
کفر میرا لائق ارباب ایماں ہو گیا
آہ مضطر اب وہ جلوے ہیں نہ وہ رعنائیاں
ہر نظارہ سایۂ عمر گریزاں ہو گیا
غزل
مسئلہ یہ بھی بہ فیض عشق آساں ہو گیا
رام کرشن مضطر