مسئلہ ختم ہوا چاہتا ہے
دل بس اب زخم نیا چاہتا ہے
کب تلک لوگ اندھیرے میں رہیں
اب یہ ماحول دیا چاہتا ہے
مسئلہ میرے تحفظ کا نہیں
شہر کا شہر خدا چاہتا ہے
میری تنہائیاں لب مانگتی ہیں
میرا دروازہ صدا چاہتا ہے
گھر کو جاتے ہوئے شرم آتی ہے
رات کا ایک بجا چاہتا ہے
غزل
مسئلہ ختم ہوا چاہتا ہے
شکیل جمالی