مسئلہ حسن تخیل کا ہے نہ الہام کا ہے
یہ فسانہ ذرا مشکل دل ناکام کا ہے
رات دن پہروں پہر اس کی ادا کے چرچے
یہ تماشہ بھی مرے واسطے کس کام کا ہے
مسکرانے لگے ہر سمت محبت کے چراغ
تیرے چہرے کا تصور بھی بڑے کام کا ہے
سونی سونی تھیں جو آنکھیں وہ دوبارہ ہنس دیں
نظر آیا ہے جو منظر وہ اسی شام کا ہے
اس تعلق کا کوئی رنگ نہ ڈھلنے پایا
تذکرہ شعروں میں اب بھی اسی گلفام کا ہے
لے اڑیں زرد ہوائیں مرے گھر سے خوشبو
بام و در کیا ہیں دریچہ مرے کس کام کا ہے
فصل ہو جائے تو بڑھتی ہے خوشی سے دوری
آپ کا قرب یہ سچ ہے بڑے آرام کا ہے
غزل
مسئلہ حسن تخیل کا ہے نہ الہام کا ہے
سلمیٰ شاہین