مسئلہ آج مرے عشق کا تو حل کر دے
پیار کر ٹوٹ کے مجھ سے مجھے پاگل کر دے
لوٹ لے میرا سکوں اور مجھے بے کل کر دے
یوں سمٹ آ مری بانہوں میں انہیں شل کر دے
دیکھ کر پہلی نظر میں جو امڈ آئے تھے
پھر سے جذبات میں پیدا وہی ہلچل کر دے
بن کے گھنگھور گھٹا مجھ پہ تو چھا کھل کے برس
خشک صحرا کو مرے جسم کے جل تھل کر دے
کس طرح وقت گزرتا ہے پتہ ہی نہ چلے
ابتدا آج سے کر اور اسے کل کر دے
تیرے بن مجھ کو ادھورا سا لگے اپنا وجود
یوں سما مجھ میں مرا جسم مکمل کر دے
جھیل آنکھوں کی مری جان ذرا صدقہ اتار
اور مرے نام تو آنکھوں کا یہ کاجل کر دے
اور کچھ تجھ سے نہیں مانگتا اے جان حیات
وقت بس میرے لیے اپنا ہر اک پل کر دے
چاہتا ہوں کہ نہ دیکھیں تجھے دنیا والے
صرف پردے کے لیے سامنے آنچل کر دے
قبل اس کے مجھے جھلسا دے غموں کا سورج
مجھ پہ تو اپنی سیہ زلفوں کا بادل کر دے
میرے اللہ نظر بھر کے اسے دیکھ تو لوں
پھر تو چاہے مری آنکھوں کو مقفل کر دے
ڈوب جاؤں میں ترے عشق سمندر میں ندیمؔ
اپنی سانسوں سے مری سانسوں کو بوجھل کر دے
غزل
مسئلہ آج مرے عشق کا تو حل کر دے
فرحت ندیم ہمایوں