مسافت منزلوں کی جب ہمارے سر پہ رکھی تھی
فلک کاندھوں پہ رکھا تھا زمیں ٹھوکر پہ رکھی تھی
ہمارے پیار کی شہرت ہوئی تھی یوں زمانے میں
ورق سڑکوں پہ بکھرے تھے کہانی گھر پہ رکھی تھی
کیا ہے حرف حق ہم نے ادا کچھ اس قرینے سے
نظر قاتل پہ رکھی تھی زباں خنجر پہ رکھی تھی
تجھے پانے کی الجھن میں کچھ ایسے دن بھی گزرے ہیں
بدن شبنم سے جلتا تھا قضا بستر پہ رکھی تھی
غزل
مسافت منزلوں کی جب ہمارے سر پہ رکھی تھی
منصور عثمانی