EN हिंदी
مسافت منزلوں کی جب ہمارے سر پہ رکھی تھی | شیح شیری
masafat manzilon ki jab hamare sar pe rakkhi thi

غزل

مسافت منزلوں کی جب ہمارے سر پہ رکھی تھی

منصور عثمانی

;

مسافت منزلوں کی جب ہمارے سر پہ رکھی تھی
فلک کاندھوں پہ رکھا تھا زمیں ٹھوکر پہ رکھی تھی

ہمارے پیار کی شہرت ہوئی تھی یوں زمانے میں
ورق سڑکوں پہ بکھرے تھے کہانی گھر پہ رکھی تھی

کیا ہے حرف حق ہم نے ادا کچھ اس قرینے سے
نظر قاتل پہ رکھی تھی زباں خنجر پہ رکھی تھی

تجھے پانے کی الجھن میں کچھ ایسے دن بھی گزرے ہیں
بدن شبنم سے جلتا تھا قضا بستر پہ رکھی تھی