مرنے کی کوئی راہ نہ جینے کا سبب ہے
جینا بھی یہاں قہر ہے مرنا بھی غضب ہے
آ جاؤ یہ کوچہ بھی رہ گیسو و لب ہے
زنجیر بھی خنجر پہ لہو بھی یہاں سب ہے
سنتے ہوئے جگ بیت گیا قصۂ جمہور
اب اس کو حقیقت بھی بنا ڈالیے تب ہے
یہ آج فضا میں جو گھٹن ہے جو امس ہے
کہتے ہیں یہ طوفاں کے لیے حسن طلب ہے
پہچان ہی لے گا یہ لہو دامن قاتل
ہاں حشر کا ہنگام بتا دو کوئی کب ہے

غزل
مرنے کی کوئی راہ نہ جینے کا سبب ہے
قمر رئیس