EN हिंदी
مرنے کی کوئی راہ نہ جینے کا سبب ہے | شیح شیری
marne ki koi rah na jine ka sabab hai

غزل

مرنے کی کوئی راہ نہ جینے کا سبب ہے

قمر رئیس

;

مرنے کی کوئی راہ نہ جینے کا سبب ہے
جینا بھی یہاں قہر ہے مرنا بھی غضب ہے

آ جاؤ یہ کوچہ بھی رہ گیسو و لب ہے
زنجیر بھی خنجر پہ لہو بھی یہاں سب ہے

سنتے ہوئے جگ بیت گیا قصۂ جمہور
اب اس کو حقیقت بھی بنا ڈالیے تب ہے

یہ آج فضا میں جو گھٹن ہے جو امس ہے
کہتے ہیں یہ طوفاں کے لیے حسن طلب ہے

پہچان ہی لے گا یہ لہو دامن قاتل
ہاں حشر کا ہنگام بتا دو کوئی کب ہے