EN हिंदी
مرکز حرف تکلم تھا بیاں تک نہ ہوا | شیح شیری
markaz-e-harf takallum tha bayan tak na hua

غزل

مرکز حرف تکلم تھا بیاں تک نہ ہوا

قمر عباس قمر

;

مرکز حرف تکلم تھا بیاں تک نہ ہوا
اک ترا ذکر تھا جو میری زباں تک نہ ہوا

شوق پرواز میں پر ٹوٹ گئے طائر کے
وہ یقیں تھا کہ مرے دل کو گماں تک نہ ہوا

کیا عجب طرفہ تماشا ہے تری بستی میں
میں نے اک عمر گزاری ہے مکاں تک نہ ہوا

جس کے ہونے پہ نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے
وہی گلدستۂ جاں صرف خزاں تک نہ ہوا

میں نے دنیا تری تخلیق پہ سوچا تھا بہت
راز گم گشتہ‌ٔ محبوب عیاں تک نہ ہوا

بس کہ اب ختم ہوا سلسلۂ سوز و گداز
دل مرا جل بھی گیا اور دھواں تک نہ ہوا

زندگی حرف فنا کے لیے تحریک قمرؔ
روح باقی رہی اور کوئی زیاں تک نہ ہوا