EN हिंदी
مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں | شیح شیری
mar mar gae nazar kar uske barhana tan mein

غزل

مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں

میر تقی میر

;

مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں
کپڑے اتارے ان نے سر کھینچے ہم کفن میں

گل پھول سے کب اس بن لگتی ہیں اپنی آنکھیں
لائی بہار ہم کو زورآوری چمن میں

اب لعل نو خط اس کے کم بخشتے ہیں فرحت
قوت کہاں رہے ہے یاقوتی کہن میں

یوسف عزیز دلا جا مصر میں ہوا تھا
پاکیزہ گوہروں کی عزت نہیں وطن میں

دیر و حرم سے تو تو ٹک گرم ناز نکلا
ہنگامہ ہو رہا ہے اب شیخ و برہمن میں

آ جاتے شہر میں تو جیسے کہ آندھی آئی
کیا وحشتیں کیا ہیں ہم نے دوان پن میں

ہیں گھاؤ دل پر اپنے تیغ زباں سے سب کی
تب درد ہے ہمارے اے میرؔ ہر سخن میں