EN हिंदी
مر کر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی | شیح شیری
mar kar mariz-e-gham ki wo haalat nahin rahi

غزل

مر کر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی

فانی بدایونی

;

مر کر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
یعنی وہ اضطراب کی صورت نہیں رہی

ہر لمحۂ حیات رہا وقف کار شوق
مرنے کی عمر بھر مجھے فرصت نہیں رہی

ایک نالۂ خموش مسلسل ہے اور ہم
یادش بخیر ضبط کی طاقت نہیں رہی

وہ عہد دل فریبئ تاثیر اب کہاں
مدت سے آہ آہ کی حسرت نہیں رہی

دل اور ہوائے سلسلۂ جنبانئ نشاط
کیوں پاس وضع غم تجھے غیرت نہیں رہی

ہر بے گناہ سے وعدۂ بخشش ہے روز حشر
گویا گناہ کی بھی ضرورت نہیں رہی

اے عرض شوق مژدہ کہ دل چاک ہو گیا
تکلیف پردہ دارئ حسرت نہیں رہی

پتھرا گئی تھی آنکھ مگر بند تو نہ تھی
اب یہ بھی انتظار کی صورت نہیں رہی

عبرت نے بیکسی کا نشاں بھی مٹا دیا
اڑتی تھی جس پہ خاک وہ تربت نہیں رہی

محشر میں بھی وہ عہد وفا سے مکر گئے
جس کی خوشی تھی اب وہ قیامت نہیں رہی

کس منہ سے غم کے ضبط کا دعویٰ کرے کوئی
طاقت بقدر حسرت راحت نہیں رہی

فانیؔ امید مرگ نے بھی دے دیا جواب
جینے کی ہجر میں کوئی صورت نہیں رہی