مر کر ارے واعظ کوئی زندہ نہیں ہوتا
وہ حشر مزے کا ہے جو برپا نہیں ہوتا
بت توڑنے سے بت کدہ کعبہ نہیں ہوتا
پہلے کبھی ہوتا ہو اب ایسا نہیں ہوتا
سب حشر میں ہیں آج ہمیں زیر لحد ہیں
کیا جانئے کیوں حشر ہمارا نہیں ہوتا
ہوتی ہے جو شیشے میں تو ہوتی نہیں کچھ فکر
تھوڑی سی بھی ہو تو غم فردا نہیں ہوتا
ٹھکراتے نہیں پائے حنائی سے وہ سر کو
روشن کبھی قسمت کا ستارا نہیں ہوتا
سن لیتے ہیں چپکے سے موذن کی ہم اے شیخ
جب ہاتھ میں ناقوس کلیسا نہیں ہوتا
آنے کو تو آتی ہیں جنوں خیز بہاریں
کیا جانئے اب کیوں ہمیں سودا نہیں ہوتا
میخانے میں کیوں یاد خدا ہوتی ہے اکثر
مسجد میں تو ذکر مے و مینا نہیں ہوتا
اللہ دکھائے نہ برا وقت کسی کو
کوئی بھی زمانے میں کسی کا نہیں ہوتا
ٹھکراتے ہوئے ڈرتے ہو کیوں میری لحد کو
ٹھوکر سے تمہاری کوئی زندہ نہیں ہوتا
آقا سے ریاضؔ آپ تو کہتے نہیں کچھ بھی
اوروں سے گلہ کام ہمارا نہیں ہوتا
غزل
مر کر ارے واعظ کوئی زندہ نہیں ہوتا
ریاضؔ خیرآبادی