مر جانے کی اس دل میں تمنا بھی نہیں ہے
اندر سے کوئی کہتا ہے جینا بھی نہیں ہے
گل ہو گئیں شمعیں ذرا تم جاؤ ہواؤ
شاخوں پہ کوئی ٹوٹنے والا بھی نہیں ہے
اے سنگ سر راہ ملامت سے گزر جا
تیرا بھی نہیں ہے کوئی میرا بھی نہیں ہے
احباب کی چاہت پہ شبہ بھی نہیں ہوتا
ہم جیسا مگر کوئی اکیلا بھی نہیں ہے
تو چھوڑ گیا ہے تو کوئی غم نہ کریں گے
اس دور میں انسان خدا کا بھی نہیں ہے
یہ کیا کہ خیالوں سے اڑی جاتی ہے خوشبو
میں نے تو ابھی تک اسے سوچا بھی نہیں ہے
غزل
مر جانے کی اس دل میں تمنا بھی نہیں ہے
شہزاد انجم برہانی