EN हिंदी
مر گئے پر بھی نہ ہو بوجھ کسی پر اپنا | شیح شیری
mar gae par bhi na ho bojh kisi par apna

غزل

مر گئے پر بھی نہ ہو بوجھ کسی پر اپنا

امداد علی بحر

;

مر گئے پر بھی نہ ہو بوجھ کسی پر اپنا
روح کے ساتھ ہوا ہو تن لاغر اپنا

بے طرح دل میں بھرا رہتا ہے زلفوں کا دھواں
دم نکل جائے کسی روز نہ گھٹ کر اپنا

یار سوتا نہیں منہ کر کے ہماری جانب
کبھی کروٹ نہیں لیتا ہے مقدر اپنا

تم جو دو پھول چڑھاؤ تو خوشی کے مارے
قبر کھل جائے یہ پھولے تن لاغر اپنا

انتظام آپ کی سرکار میں یوں لازم ہے
بند و بست آپ کا گھر میں رہے باہر اپنا

حور بھی تم ہو نگاہوں میں پری بھی تم ہو
اب تو اے جان دل آیا ہے تمہیں پر اپنا

نور برساتی ہے زلفوں کی گھٹا چہرے پر
پاؤں اس کوچے میں پھسلے گا مقرر اپنا

نیند فرقت میں کہاں موت سے آنے والی
گھر سے بہتر ہے جو تکیے میں ہو بستر اپنا

خانہ برباد کیا عشق نے طفلی سے ہمیں
کہ مٹا بیٹھی گھروندے کی طرح گھر اپنا

اب نہ کچھ بولتے بنتی ہے نہ چپ رہتے ہمیں
نہ دل اپنا نظر آتا ہے نہ دلبر اپنا

وعدۂ وصل اگر آج بھی پورا نہ ہوا
یہ سمجھ لیجئے وعدہ ہے برابر اپنا

خوبرو کچھ بھی اگر بندہ نوازی فرمائیں
مالداروں کو کریں بندۂ بے زر اپنا

بے گلا کاٹے ہوئے رات نہیں کٹنے کی
صدقہ ابرو کا دیے جائیے خنجر اپنا

ڈور ہیں سلک گہر پر کہیں اشعار اے بحرؔ
قدرداں ہو تو سنائیں اسے جوہر اپنا