منزلوں سے بھی آگے نکلتا ہوا
گر پڑا میں بہت تیز چلتا ہوا
میری مٹی بھی اس دن سے گردش میں ہے
چاک تیرا ہے جس دن سے چلتا ہوا
دھوپ کے ہاتھ اچانک ہی شل ہو گئے
ہو گیا منجمد میں پگھلتا ہوا
منتظر تھی اسی کی سماعت مری
تیرے ہونٹوں پہ جو ہے مچلتا ہوا
دھوپ دریا میں کھلتا ہے یہ راستہ
سبز پیڑوں کے ہم راہ چلتا ہوا
دل کی وادی میں پھر دھند اترتی ہوئی
میرے اندر کا موسم بدلتا ہوا

غزل
منزلوں سے بھی آگے نکلتا ہوا
وکاس شرما راز