EN हिंदी
منزل پہ دھیان ہم نے ذرا بھی اگر دیا | شیح شیری
manzil pe dhyan humne zara bhi agar diya

غزل

منزل پہ دھیان ہم نے ذرا بھی اگر دیا

آلوک شریواستو

;

منزل پہ دھیان ہم نے ذرا بھی اگر دیا
آکاش نے ڈگر کو اجالوں سے بھر دیا

رکنے کی بھول ہار کا کارن نہ بن سکی
چلنے کی دھن نے راہ کو آسان کر دیا

پانی کے بلبلوں کا سفر جانتے ہوئے
تحفے میں دل نہ دینا تھا ہم نے مگر دیا

پیپل کی چھاؤں بجھ گئی تالاب سڑ گئے
کس نے یہ میرے گاؤں پہ احسان کر دیا

گھر کھیت گائے بیل رقم اب کہاں رہے
جو کچھ تھا سب نکال کے فصلوں میں بھر دیا

منڈی نے لوٹ لیں جواں فصلیں کسان کی
قرضے نے خودکشی کی طرف دھیان کر دیا