منزل پہ دھیان ہم نے ذرا بھی اگر دیا
آکاش نے ڈگر کو اجالوں سے بھر دیا
رکنے کی بھول ہار کا کارن نہ بن سکی
چلنے کی دھن نے راہ کو آسان کر دیا
پانی کے بلبلوں کا سفر جانتے ہوئے
تحفے میں دل نہ دینا تھا ہم نے مگر دیا
پیپل کی چھاؤں بجھ گئی تالاب سڑ گئے
کس نے یہ میرے گاؤں پہ احسان کر دیا
گھر کھیت گائے بیل رقم اب کہاں رہے
جو کچھ تھا سب نکال کے فصلوں میں بھر دیا
منڈی نے لوٹ لیں جواں فصلیں کسان کی
قرضے نے خودکشی کی طرف دھیان کر دیا
غزل
منزل پہ دھیان ہم نے ذرا بھی اگر دیا
آلوک شریواستو