منزل شمس و قمر سے گزرے
جب تری راہ گزر سے گزرے
شب کی گاتی ہوئی تنہائی میں
کتنے طوفاں تھے جو سر سے گزرے
وہیں پت جھڑ نے پڑاؤ ڈالا
قافلے گل کے جدھر سے گزرے
ہر طرف ثبت ہیں قدموں کے نشاں
کوئی کس راہ گزر سے گزرے
کس قدر خود پہ ہمیں پیار آیا
آج جب اپنی نظر سے گزرے
سرخیٔ گل سے بھی چونکے گل رخ
وہ زمانے بھی نظر سے گزرے
دشت و صحرا کا بھی دامن سمٹا
تیرے دیوانے جدھر سے گزرے
خود نگر ہو گئے راحتؔ ہم بھی
آج وہ کاش ادھر سے گزرے
غزل
منزل شمس و قمر سے گزرے
امین راحت چغتائی